خود سے خدا تک
الّٰلہ کی پہچان

ناصرافتخار الگ سے کوئی بات کرناچاہتےتھے۔ کھلے صحن میں ، سرماکی مہربان دھوب میں ایک اور صاحب بھی آن بیٹھے ۔ معلوم نہیں کیوں اور کیسے سعادت حسن منٹو کا ذکر چھڑاتو انہوں نے کہا: تخلیقی بے معنویت کریٹیوں نونسنس کے سوا منٹو کیا ہے۔ جواں سال آدمی کی آواز میں قطعیت تھی۔ چونک کر میں نے اس کی طرف دیکا اور سوچا کہ اردو کے عظیم افسانہ نگار کو ایسی جامعیت کے ساتھ شاید ہی کبھی بیان کیا گیا ہو۔
پروفیسر احمد رفیق اختر
پروفیسر احمد رفیق اختر کے شاگردوں، بالخصوص نو جوان شاگردوں کی خصوصیت یہ ہے کہ کھوٹا کھر ا الگ کرنے کے وہ خوگر ہوتے ہیں اور بے رحمی کی خدتک۔ کہنے کوسبھی کہتے ہیں کہ سارا فریب نفس کا ہے۔ آدمی کی ساری متاع جبلتوں کی وحشت میں گم ہوجاتی ہے۔ خیمہء گل ہوائے چمن میں ٹھہر نہیں سکتا۔ ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جاتا اور قدموں تلے پامال ہوتا ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ جس نے خود کو اپنے نفس کو پہچان لیا، اس نے اللہ کو پہچان لیا۔ اپنی شناخت اپنے باطن میں ڈوب کر اپنا سراغ لگانے کی مہم دنیا کی مشکل ترین مہم ہے۔
سلطان ہونے کہا تھا: دل دریا،سمندروں ڈونگے ، کون دلاں دیاں جانے ھُو۔ اول تواس دریا میں کوئی اترتاہی نہیں اور اگر اُترے تو جلدی ہی تھک کر لوٹ آتا ہے کہ آدمی کو خود سے محبت بہت ہوتی ہے ۔ اپنے خلاف لڑی جانے والی یہ جنگ صرف وہی جیت سکتاہےجو صداقتِ ازلی کاشیداہو۔
اقبال کامردِصوفی خود سے خدا تک
یہی اقبال کامردِمومن ہے، اسی کو ہم صوفی، درویش اور سالک کہتے ہیں۔ آزمائش بہت بڑی ہے اور عقل چھوٹی ہے۔ بچے گاصرف وہی جوایمان رکھتا ہو، صبر کا دامن ہمیشہ تھامے رکھے اور غوروفکر کو شعار کرلے۔ عارف نےکہا تھا: دوچیزیں شاید انسان کبھی نہ سمجھ سکے گا۔ جنابِ مصطفیٰﷺکے مقامات کتنے ہیں اور نفس کے فریب کس قدر۔۔۔۔شاید اس میں تھوڑاساضافہ کرنا چاہیے ۔۔۔ عہدِاول کے بعد کبھی آدمی یہ نہ سمجھ سکا کہ اللہ کی آخری کتاب میں علوم کا خزانہ کس قدر بے کراں ہے۔
ناصر افتخار نے اس دریا میں چھلانگ لگائی ہے اور بہت سے لعل وگوہر تلاش کیے ہیں۔ بہت سے سانپوں ، سنپوں اور اژدھوں کا سراغ لگایا ہے۔ بھی طوفانی موجوں سے وہ لڑ رہے ہیں لیکن ساحل کے عزم اور تمنا کے ساتھ فرمایاؑ: مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتاہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مومن کی فراست عطاکرے۔ اس راہ پر اسی عزم اور خلوص کے ساتھ وہ گامزن رہے تو کیا عجب ہے کہ راہِ سلوک کے ریار میں ایک اور فردِ فرید نمودار ہو۔ اللہ تعالیٰ انہیں عزم و شرف عطاکرئے۔
خود سے خدا تک: انسانی تاریخ
انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ اہمیت ہمیشہ ان لوگوں کو ملی، جو زیادہ جانتے تھے۔ جو زیادہ جانتا تھا، اسی نے اوزار بنائے،اسی نے ایجادات کیں اور اسی نے ہتھیار بنائے۔میں ناصر افتخار سے مل کرحیران پریشان رہ گیا ہوں وہ بھی پروفیسر احمد رفیق اختر کا ایک شاگرد ہے ۔ میری رائے میں وہ ہم سے بہت زیادہ جانتا ہے۔ اس کے مقابل میں خود کو ایک طفلِ مکتب محسوس کررہا ہوں۔ سوچتاہوں کہ یہ شخص مجھے پہلے مل گیا ہوتا تو شاید آج سب کچھ مختلف ہوتاہے۔
کہکشائیں، ستارے اور سیارے، ایک زمین پر زندہ چیزیں،اس سیارے پر ایک زندہ شے( انسان) کی حکمرانی سمیت ہمیں جو کچھ بھی کائنات میں نظرآرہاہے، بظاہر بہت پیچیدہ ہے پھر بھی اسے چند سطروں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
خدانے چاہا کہ ایک مخلوق کو آزمائش سے گزاراجائے تو اس نے اس مخلوق یعنی انسان کو عقل دےدی۔ انسان آج خود کو اس سیارے کا حکمران سمجھتا ہے لیکن کہانی صرف اتنی سی نہیں تھی ۔ انسان کو جہاں عقل کا عظیم الشان تحفہ دیا گیا۔ وہیں اسے نفس جیسا دشمن بھی دیا گیا۔نفس انسان کا بدترین دشمن ہے۔ انسان کو وہ خدا کانمائندہ ریپرینزیٹیوں سمجھتے ہوئے اس پہ حملہ آور ہے۔ ساری کہانی اسی نفس کے گرد گھومتی ہے جو ہمارے خالق سے بیزار ہے لہٰذا ہمارے بھی دشمن ہے۔
خود سے خدا تک: ہماری حیوانی خواہشات کا مجموعی ہے، جو کروڑوں برس کے تجربات کی وجہ سے انتہائی خوفناک قوت کا مالک ہے۔ یہ ہمارے جسم کے اندر ہمارے دماغ کے نچلے حصوں میں رہتا ہے ۔ آپ اس دشمن کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ۔ وہ بہت طاقتور ہے ۔ آپ شدید خطرے میں ہیں۔ یہ آپ کے اندر ہے۔ آپ کا ہاتھ ہے ۔ وہ آپ کا پاؤں ہے۔ وہ آپ کے اعضاکو آپ کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ اب اگر انسان اس دشمن اور اس کی طاقت کو نہیں جانے گاتو ظاہر ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کی کوئی تدبیر بھی نہیں کرسکے گا۔ انسانی تاریخ می صوفیاوہ واحد لوگ تھے، جو اس مردود کی خوفناک طاقت سے واقف تھے۔ انہوں نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی لیکن ہمارایہ دشمن انتہائی خوفناک حدتک چالاک ہے۔
ناصر صاحب بتاتے ہیں کہ جیسے ہی ہمیں اس کی کمزوری کا علم ہوتا ہے، ساتھ ہی اسے بھی پتہ چل جاتا ہے کہ اس شخص کومیری کمزوری کا علم ہوگیا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ نفس کے بارے میں بات کرنے والا در حقیقت اپنی علمیت کا رعب جھاڑ رہا ہواور اسے خود بھی اس بات کا علم نہ ہو۔۔۔ تو وہ درحقیقت خود بھی نفس کی ہی پیروی کررہا ہے۔
خود سے خدا تک نول ناصرصاحب کہتےہیں کہ اگراللہ ہدایت نہ دے تونفس کےعلم کابھی کوئی فائدہ نہیں۔دینا میں جو کچھ ہورہا ہے،وہ نفسِ انسان کی عادات کا نتیجہ ہے۔ اس نفس کو خود سے شدید ترین محبت ہے۔ اسے اپنے اندر کوئی خامی، کوئی کمی قطعاًبرداشت نہیں۔ ایک ذراسا نقص بھی اپنے اندر اسے گوارانہیں۔ انسان یا تو اپنے نفس کا پجاری ہوتا ہےیا پھر خدا کا۔ یہ نفس پوری دنیا پہ بلاشرکت غیرے حکومت کرنا چاہتا ہے۔
وہ اپنے مخالفین کو پیس دینا چاہتا ہے۔ کسی بھی خوبصورت ” اسٹیومیلس ” پر یہ نفس اس طرح حملہ آور ہوتا ہے جیسے بھوکا کتا گوشت پر لپکتا ہے۔ ایک چیز تو یہ ہے کہ بندہ پانی کا ایک گلاس پیے اور پیاس ختم یا کم ہو جائے لیکن اگر پیاس شدید ہے اور پانی پینے سے اور بھڑک اٹھتی ہے تو پھر انسان تو ساری زندگی پیاساہی پھرتا رہے گا۔ آج سب پیاس سے پھر رہے ہیں سوائے ان کے، جنہوں نے خداکی دی ہوئی عقل کی مدد سے نفس کو سمجھا، پھر خدا کی مدد سے اسے پچھاڑدیا۔ اللہ سب کا مدد گار ہوں آمین
Download PDF In Urdu Click Here
:متعلقہ ناول
Good G